May 4, 2024

Warning: sprintf(): Too few arguments in /www/wwwroot/redpanal.com/wp-content/themes/chromenews/lib/breadcrumb-trail/inc/breadcrumbs.php on line 253
Police officers detain a protester after blocking a street during a protest demanding the U.S. government to stop arming Israel, during the ongoing conflict between Israel and the Palestinian Islamist group Hamas, in the Brooklyn borough of New York City, U.S., April 23, 2024. (Reuters)

غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف امریکی طلباء کا احتجاج پچھلے ہفتے وسیع تر اور شدید تر ہوگیا ہے ، متعدد یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بڑی تعداد میں طلباء احتجاج کر رہے ہیں ان یونیورسٹیوں میں کولمبیا ، ییل اور نیویارک یونیورسٹی شامل ہیں ۔ اس موقع پر متعدد یونیورسٹیوں میں پولیس کو بلانا پڑا تاکہ وہ اسرائیلی جنگ کے خلاف مظاہرہ کرنے والے طلباء کو گرفتار کرسکیں ۔ ایک طرف امریکی نوجوانوں اور طلباء میں غزہ میں اسرائیلی جنگ کے خلاف ردعمل شدید تر ہو رہا ہے اور دوسری طرف جو بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیلی فوج کے لیے نئے امدادی پیکج کی منظوری دی ہے۔

احتجاجی طلباء کا مطالبہ کیا ہے ؟

کیمپسز کے اندر پھوٹنے والے طلباء کے اس وسیع احتجاج نے اہم ترین مطالبہ غزہ میں مستقل اور فوری جنگ بندی کا ہے جبکہ دوسرا اہم مطالبہ جو بائیڈن انتظامیہ سے یہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کے لیے فوجی امداد ، جنگی اسلحہ بارود اور معاونت کو روک دے ۔ نیز امریکہ کی اسلحہ ساز کمپنیاں اور اسلحہ بھیجنے والی کمپنیاں بھی اسرائیل کو بھیجنا بند کردیں ۔ اسی احتجاج کے باعث یونیورسٹیز کے کئی اساتذہ اور سربراہان کو ملازمت سے نکلنا پڑ چکا ہے اس کے باوجود جوں جوں غزہ میں میں شہری ہلاکتوں کی تعداد بڑھتی رہی ہے امریکی تعلیم گاہوں میں طلباء اور اساتذہ کا احتجاج بھی زور پکڑتا گیا ہے ۔

غزہ میں ہلاکتوں کے 200 دن مکمل ہونے پر 34184 شہری ہلاک ہوچکے ہیں جن میں دو تہائی فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہلاکت ان طلباء اور اساتذہ کے لیے زیادہ تکلیف کن اور پریشان کن ہے۔

احتجاج کرنے والے کون ہیں ؟

فلسطینیوں کے حامی مظاہرین نے انسانی بنیادوں پر اپنی احتجاجی کال میں مختلف طبقات اور پس منظر سے تعلق رکھنے والے طلباء اور اساتذہ کو اپنے مطالبات کی طرف مائل کیا ہے حتی کے ان میں امریکی یہودی بھی شامل ہیں جو غزہ میں اسرائیلی جنگ کو قبول کرنے کو تیار نہیں ۔ اس میں مسلمان اور اسرائیلی نوجوان بھی شامل ہیں ، طلباء اور طالبات بھی شامل ہیں ، لیکچرز اور پروفیسرز بھی شامل ہیں ،مختلف کمیونیٹیز سر تعلق رکھنے والے گروہ اور تنظیمیں بھی شامل ہیں جیسا کہ’ فلسطین میں انصاف’ اور’ امن کے لیے یہودیوں کی آواز’ والی تنظیمیں بھی شامل ہیں۔

احتجاج کے دوران مختلف مذاہب کے ماننے والوں نے دعائیہ تقریبات کے ساتھ ساتھ موسیقی کے پروگرام بھی کیے ہیں تاکہ اپنے خیالات و جذبات کا فلسطینیوں کے حق میں اظہار کرسکیں۔

طلباء اور امریکی حکام کا احتجاج پر ردعمل ؟

اسکول کی انتظامیہ اور مقامی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے احتجاج کے خلاف کریک ڈاؤن کیا ہے ۔ کولمبیا اور اسسے منسلک برنارڈ کالج نے احتجاج میں شامل درجنوں طلباء کو معطل کردیا ہے ۔ کولمبیا مین100 سے زائد مظاہرین کو گرفتار کر لیا گیا ہے ۔ یونیورسٹی کے صدر منوشے شفیق نے امریکی کانگریس کے ایوان نمائندگان کی کمیٹی کے سامنے گواہی دینے کے بعد اگلے دن ہی نیو یارک پولیس کو کیمپ خالی کرنے کے لیے بلا لیا تھا ۔ انہوں نے کہا کہ کیمپ نے قوانین کی خلاف ورزی کی ہے ۔

یونیورسٹی کے مطابق ییل پولیس نے پیر کے روز 60 سے زائد مظاہرین کو بہت زیادہ مواقع دینے کے بعد گرفتار کرلیا ۔

نیویارک پولیس نے کہا ہے کہ اہلکاروں نے ‘این وائے یو ‘ میں پیر کے روز 120 لوگوں کو گرفتار کیا ۔ یونیورسٹی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ ہم نے پولیس کو مداخلت کرنے کے لیے کہا تھا کیونکہ مظاہرین منتشر نہیں ہو رہے تھے اور ہماری کمیونٹی کی سلامتی اور سیکیورٹی میں مداخلت کر رہے تھے ۔

تعلیمی دنیا کی عمومی زندگی پر اثرات ؟

پیر کو عملی طور پر تمام کلاسز کے انعقاد کے بعد کولمبیا انتظامیہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ بقیہ سمسٹرز کے زیادہ تر کورسز آنلائن تعلیم کے اختیارات کے ساتھ پیش کیے جائیں گے ۔ یونیورسٹی کے صدر نے یہ بھی کہا ہے ہے کہ وہ کسی گروپ کو گریجویشن میں خلل ڈالنے کی اجازت نہیں دیں گی۔

سیاسی رہنماؤں کا ردعمل کیا ہے ؟

صدر جوبائیڈن جن پر مظاہرین تنقید کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو فنڈز اور عطیہ دے رہے ہیں انہوں نے پیر کے روز کہا ہے کہ وہ یہود دشمنی کی بھی مذمت کرتے ہیں اور ان کی بھی جو نہیں سمجھ رہے کہ فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔ سابق امریکی صدر اور اگلے صدارتی انتخاب میں جو بائیڈن کے مد مقابل ڈونلڈ ٹرمپ نے طلباء کے اس احتجاج کو افراتفری اور ہنگامے سے تعبیر کی ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *